Back in 2011 I joined Quad-i-Azam university in MSc. Computer Science. After few days, we were in class. There was a knock on door. Our seniors asked the teacher for orientation. When teacher refused, seniors said it will be just a formal introduction of seniors with new comers.
Being C.R I said okay, but I will not support anything else.
We gathered at chemistry huts and orientation turned into ragging. My class fellow was asked to act like a monkey. wear socks in hand and make it a mike. Speak certain words in each sentence.
There was a time when people used to train bear, monkeys for entertainment. At some places still these things happen but officially it is not allowed world wide.
Those jugglers got places in universities. They are disrespectful to juniors and egoistic. When I wanted to leave the ground their ego got hurt. The fight was about to begin.
Next day I went to student coordinator with an application. I wanted to let the teachers know what happens in the name of orientation.
I didn’t wanted to put anyone on risk so I didn’t mentioned any name. It was a general application to stop student’s orientation.
In a room for explanation, all the seniors along with some of my fellows were united against me. I didn’t had witness on my side. I was lost and broken.
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
Some people said, we should have favor of seniors in university. These ragging are good way to have relations.
I never looked back for support. Never failed in any exam. In my studies I have all A’s and B’s. Have been coordinator of literature, organized few events from inter departments to inter universities.
I am not a gold medalist. I was never intended to be a topper but I learned a lot. I did great with my studies. I am part of alumni network. I am satisfied.
Those who have been part of ragging, it never helped them. It is not healthy in any sense. WHY it is still part of colleges & universities?
ترجمہ: اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک
کہ صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے جدا ہوجائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو،
صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن
سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (ِمنَ الفجر) کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں
نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی
میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہو گیا کہ اس سے
مراد رات سے دن ہے ۔ (صحیح بخاری:1917)
مسند احمد میں ہے سیدنا عدی
بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکیے
تلے رکھ لیے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا
تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا
ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:1916) مطلب نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات
کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آ جاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق و
مغرب تک کی ہے.
رمضان المبارک میں سحر و افطار کے
اوقات کار کا کیلنڈر ہر مسجد، گھر اور بازار کی زینت بنتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ
کیلنڈر کیسے بنایا جاتا ہے؟ پہلے رمضان سے بھی قبل بتا دیا جاتا ہے کہ آنے والے
دنوں میں سحری کس وقت تک کی جا سکتی ہے اور افطار کس وقت کرنا ہے۔ وقت کا تعین
گھڑی سے کیا جاتا ہے جو ہر علاقہ کے لئے مختلف بھی ہوتا ہے۔ جو وقت ہم گھڑی میں
دیکھتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس وقت سورج کتنے درجے پر
ہے۔ اسی وقت کو ہم رسول سلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں نمازوں
کے لئے متعین کرتے ہیں۔
مثال کی طور پر عصر کا وقت اس وقت
شروع ہوتا ہے جب سائے اپنی اصل سے دوگنا بڑھ جاتے ہیں۔ کسی بھی مسجد جا کر شمسی
کیلنڈر کو دیکھ لیں اس میں پورے سال کے لئے عصر کا وقت متعین ہو گا۔ کس مہینے کی
کس تاریخ پر عصر کس وقت ادا کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بغیر کسی پیمائش
کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گرمی، سردی میں کس وقت سائے دوگنا ہو جاتے ہیں اور ہم
عصر ادا کر سکتے ہیں۔
اول اول تو جب لفظی مطلب کو دیکھا
گیا تو صحابہ کرام نے واقعتا سفید اور سیاہ دھاگوں کو ملا کر دیکھا۔ رسول صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے تعملیم فرمائی کے اس سے مراد رات کی سیاہی میں سے دن کے اثرات
نمودار ہونا ہے۔ میں سوچ سکتا ہوں کہ صدیوں تک مسلمان انتہائی ذمہ داری کے ساتھ
سحری کے وقت آسمان کو دیکھتے ہوں گے یا ایک اندازہ مقرر کر کے رکھتے ہوں گے تا کہ
وہ کھانے پینے سے ہاتھ روک لیں۔
گھڑی ایجاد ہوئی اور سورج کی رفتار،
زمین کی گردش اور زمین کی رفتار کا تعین ہونے کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ گھڑی کی
سوئیوں کے مطابق کب سورج کے طلوع ہونے کا وقت ہے اور کب غروب ہونے کا۔ آج کے دور
میں کبھی کسی کو دیکھا ہے کہ وہ سحری کھانے کے ساتھ آسمان پر نظر جمائے بیٹھا ہو
کہ کس وقت سفید اور سیاہ دھاریاں الگ ہوں گی؟
اسی طرح جب ہم رمضان اور شوال کے
چاند سے متعلق بصری شہادتوں کی بات ہے تو اولیں دور میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا
جو آنکھ کی شہادت سے زیادہ معتبر ہو۔ اس میں بھی فتنہ کا اندیشہ تھا۔ ممکن تھا کہ
ایک شخص یہ کہہ کر عید منا لے کہ اس نے چاند دیکھ لیا اب چاہے باقی دنیا روزے سے
ہو وہ عید کرے گا۔ اسلام نے حکم دیا کہ اس معاملے میں جمہور کا اتفاق ضروری ہے۔
اگر ہم لفظی مطلب کے بجائے
حقائق کی بات کریں تو قمری مہینے کا آغاز چاند کی پیدائش سے ہو گا نہ کہ ناظر کے
دیکھنے سے۔ چاند کی پیدائش، عروج اور زوال اپنے مقررہ وقت پر ہوگا۔ آج ہمیں معلوم
ہے کہ زمین کے گرد چاند کا ایک چکر29.53 دنوں میں مکمل ہو گا۔ اگر ہمیں چاند کی ایک حالت
کا علم ہے تو ہم آسان ریاضی کے ذریعے آنے والے دنوں میں پیش آنے والی چاند کی
حالتوں کا تعین کر سکتے ہیں اور پھر یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ نیا چاند کب پیدا ہو
گا۔
اگر ہم بصارت اور جمہور کی بصارت سے
مراد حق کی تلاش لیں تو آج ہمارے پاس سائنسی پیمانے میسر ہیں جس میں انسانی لغزش
کا احتمال نہیں ہے۔ کسی انسان کی ذاتی رائے کی ملاوٹ ممکن نہیں ہے اور فساد پیدا
کرنے والوں کا قلع قمعہ کرنا ممکن ہے۔ ایسے میں حقیقت سے روگردانی کرنا، الفاظ کو
اپنی مرضی کے معانی پہنانا اور فرقہ واریت کو موقع فراہم کرنا اسلام کی تعلیم نہیں
ہے۔
جیسے سورج کے اوقات کار مخصوص ہیں
اور پوری دنیا کے مسلمان سورج کو دیکھنے کے بجائے گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتے ہوئے
نمازیں ادا کر تے ہیں اور سحری اور افطاری کا اہتمام کرتے ہیں بالکل اسی طرح چاند
کے اوقات کار بھی مخصوص ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ چاند کے اس اتار چڑھائو
میں ایک سیکنڈ کی بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے۔
اللہ کی صناعی میں نہ کوئی غلطی کا گمان کیا جا سکتا ہے اور نہ دیر سویر کا۔ ہر
چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اسی وقت وقوع پذیر ہو گی۔
اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لئے (بغیر رکے) چلتا رہتا، ہے یہ بڑے غالب بہت علم والے (رب) کی تقدیر ہے۔ . اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ . نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں
آسمان اور آسمان میں تیرنے والے
اجرام فلکی نے ہمیشہ سے انسان کو مبہوت کئے رکھا۔
جب یہ ستارے انسان کی سمجھ سے بالاتر تھے تو انسان نے انہیں ہاتف غیبی کی
پیغام رسانی کا ذریعہ سمجھا۔ ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرضی تعلقات قائم کئے،
خطوط کھینچے اور اپنے تخیل کے زور پر مختلف اشکال کو فرض کر لیا۔
اللہ نے اس کائنات کو بے عیب بنایا
ہے۔ اس کائنات میں ایٹم کے اندر موجود باریک ترین ذرات سے لے اجرام فلکی تک اور
ہماری سوچ سے ماورا ہر چیز کو ایک ترتیب اللہ نے عطا کی ہے اور اس ترتیب میں بال
برابر بھی فرق نہیں آسکتا۔ اگر یہ زمین ایک ذرہ بھی سورج کی قریب یا دور ہوتی تو
زمین پر زندگی کا کوئی وجود نہ ہوتا۔
ہم انسانوں کے معمولات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر نو بجے دفتر پہنچنا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ روزانہ ہم نو بجے ہی پہنچ رہے ہوں، کبھی کچھ منٹ اور سیکنڈ کم کبھی کچھ منٹ اور سیکنڈ زیادہ ہو ہی جاتے ہیں۔ یہ ہم انسانوں کی بنائے ہوئے معمولات سے ہٹ کر ایک چیز ہے۔ یہ زمین، چاند، سورج، سیارے، ستارے اور دیگر اجرام فلکی مقرر کردہ مداروں میں متعین کردہ رفتار کے ساتھ تیر رہے ہیں۔
اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے
سورہ ابراھیم، آیت ۳۳
جہاں الل نے یہ کائنات اور اس کے
اجزا پیدا کئے ہیں وہیں انسان کو بھی تجسس اور شعور دے کر پیدا کیا۔ اللہ چاہتا ہے
کہ انسان اپنے اد گرد نظر دوڑائے، غور فکر کرے اور کائنات کے اسرار جاننے کی کوشش
کرے۔ کائنات کے ان گنت علوم اور اسرار میں سے ایک علم ریاضی کا ہے۔ وکیپیڈیا کے
مطابق
“ریاضی دراصل اعداد کے استعمال کے ذریعے
مقداروں کے خواص اور ان کے درمیان تعلقات کی تحقیق اور مطالعہ کو کہا جاتا ہے،
“
ان گنت سالوں کی تحقیق اور متجسس ذہنوں نے ریاضی کے ذریعے ہی معلوم کیا کہ زمین کی شکل ایک توے کے بجائے کرہ کی مانند ہے۔، زمین کی گردش سورج کے گرد ہے نہ کہ سورج زمیں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ زمین کا محل وقوع کیا ہے اور نظام شمسی میں کون سے سیارے شامل ہیں۔ مزید انسان نے یہ جانا کہ زمین کی کمیت
5.972 x 10^24 KG
ہے۔ زمین کا سورج سے فاصلہ
149.6 million Km
ہے۔ چاند کا زمین سے فاصلہ
384,400 Km
ہے۔ ریاضی کے علوم نے اور وقت سے ساتھ حاصل کی ہوئی ٹیکنالوجی سے انسان نے اجرام فلکی کے مدار معلوم کئے، ان کی رفتار اور ان کے باہمی تعلق کو پہچانا۔
سورج اور چاند کیلئے ایک حساب ہے
سورہ الرحمن، آیت ۵
یہ حقائیق بالکل اسی طرح عیاں ہیں
جیسے ایک عام آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ سال کے دنوں میں سورج کس وقت طلوع ہو گا
اور کس وقت غروب ہوگا۔
اجرام فلکی کی اس گردش کا ایک تعلق قدیم رسم و رواج اور مذاہب کے ساتھ بھی ہے اور موجودہ دور کے وقت کے پیمانہ کے ساتھ بھی ہے۔ جیسے 24 گھنٹے کا ایک دن، زمین کے اپنے مدار کے گرد چکر لگانے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ 365 دن، 12 مہینے اور ایک سال سے زمین کے سورچ کے گرد ایک چکر مکمل کرنے کا پیمانہ ہے۔
چاند کی درجات طے کرنے کے ساتھ مہینوں اور
موسموں کا تعین کیا جاتا ہے۔ دیگر مذاہب اور تہذیب و تمدن کی طرح اسلام میں بھی
چاند کی تواریخ کو اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ چان کی پہلی
تاریخ کا تعین افق پر چان کے نظر آنے سے ہوتا ہے۔ چاند افق پر اس وقت نظر آئے گا
جب سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی چاند افق پر موجود رہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا
جائے تو جیسے سورج غروب ہوتا ہے ایسے چاند
بھی غروب ہوتا ہے۔ جیسے ہر خطہ کے لئے سورج کے غروب ہونے کا وقت مختلف ہے اسی طرح
چاند بھی ہر خطہ میں مختلف وقت میں غروب ہوتا ہے۔اور اگر چاند کا غروب ہونا، سورج
کے غروب ہونے سے پہلے واقع ہو جائے تو چاند نظر نہیں آئے گا۔ اور اس خطہ کے لئے
چاند کی پہلی تاریخ، شمسی تاریخ کے اگلے دن پر واقع ہوگی۔
پہلے وقتوں میں چاند کی پہلی تاریخ
کا تعین انسانی آنکھ کی شہادت سے کیا جاتا تھا۔ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ چونکہ
لاکھوں لوگ اس کے گواہ ہو سکتے ہیں تو کوئی دو چار لوگ اس کا انکار نہیں کر سکتے
جبکہ اس میں قباحت یہ ہے کہ بادل ہونے کی صورت میں چاند نظر نہیں آتا۔
انہی علوم کے ذریعے جن کے اسرار
اللہ نے انسانوں پر عیاں کئے۔ ہم زمین کے کسی بھی حصے کے لئے افق کا تعین کر سکتے
ہیں، چاند اور سورج کے مدار اور ان کی رفتار کا تعین کر سکتے ہیں۔ اور اس بنا پر
ہم بتا سکتے ہیں کہ چاند کی پہلی تارخ واقع ہوئی یا نہیں ہوئی۔
آپ ایک دکان دار سے پھل لینے چائیں
اور وہ چار دانے اٹھا کر آپ کو پکڑا دے۔ یہ لیجئے یہ پھل ایک کلو ہو گیا۔ کیا آپ
اس کا یقین کر لیں گے؟ میرا خیال یہ ہے کہ جب تک ترازو پر ناپ تول نہ کر لیا جائے
دکاندار کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی
طرح ہو سکتا ہے کوئی شخس یا گروہ چاند کی
جھوٹی شہادت دے مگر جب اللہ کے دئے ہوئے علوم کے ذریعے ہم ناپ تول کریں گے تو شک
کی گنجائش نہیں رہے گی۔ کسی انسان کے اندازے کو ترازو کے اصل تول پر فوقیت نہیں دی
جا سکتی اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ مدار اور اجرام فلکی کی رفتار کے لئے انسانی
آنکھ کی شہادت سے بجائے ریاضی کے اصول کی شہادت کو فوقیت رہے گی۔
زیر نظر تصاویر ایک
سافٹ وئیر سے لی گئی ہیں جو اجرام فلکی سے متعلق معلومات جدید علوم کے مطابق فراہم
کرتا ہے۔ اس میں سرخ لائن افق کو ظاہر کر رہی ہے۔ جمک دار ستارہ سورج ہے۔ چاند کو
واضح کرنے کے لئے پیلے رنگ کا دائرہ لگایا گیا ہے اور نیلے رنگ کا مدار چاند کا
مدار ہے
پہلی تصویر چار مئی کو شام 7 بجے اسلام آباد سے لی گئی ہے جس کے مطابق چاند
06:25pm
افقی لائن عبور کر چکا تھا لہذا چاند نظر آنے کا امکان زیرو فیصد ہے۔
دوسری تصویر پانچ مئی کو شام ۷ بجے اسلام آباد سے لی گئی ہے جس کے مطابق سورج غروب ہو چکا ہے اور چاند نے ابھی افقی لائن کو عبور نہیں کیا۔ چاند افق پر 7 بج کر 25 منٹ تک رہے گا۔ تک رہے گا۔ اس کے مطابق ۵ مئی کو اسلام آباد کے لئے چاند کی پہلی تاریخ واقع ہو گئی ہے۔
میں اسی یقین کے ساتھ آنے والی چاند کی تواریخ کا تعین بھی کر سکتا ہوں۔
آج منگلا بند کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ منگلہ بند کے آبی ذخائر، پانی کے بہائو اور بجلی کی پیداوار کے متعلق علم میں اضافہ ہوا۔ منگلہ بند کی بنیاد ساٹھ کی دہائی میں رکھی گئی جبکہ یہ بند ۱۹۶۷ سے فعال ہے۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا بند ہے اور پانی کے ذخائر کے لحاظ سے ۲۰۰۳ سے پاکستان کا سب سے بڑا بند ہے۔ اس میں ۱۰ ٹربائن ہیں جن میں سے دو مرمتی مراحل میں ہیں۔ ہر ایک ٹربائن ۱۰۰ میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ ۱۵ فیصد اضافی بوجھ کے ساتھ منگلہ ڈیم ۱۱۵۰ میگا واٹ بجلی قومی دھارے میں شامل کرتا ہے۔
منگلہ بند سے حاصل کئے جانے والے مقاصد میں سب سے اہم پانی کا ذخیرہ کرنا اور کاشتکاری کے لئے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ یہی پانی جب بجلی گھر سے گزرتا ہے تو پوٹینشل توانائی کو میکینکل توانائی میں تبدیل کرتا ہے جو کہ ٹربائن اور جنریٹر چلانے کے کام آتی ہے۔
جہاں بڑی بڑی مشینری انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں وہیں منگلہ بجلی گھر کی ایک خاص بات وہاں موجود صادقین کی پینٹنگ ہے۔ “مرال” کی لمبائی ۱۷۰ فٹ اور چوڑائی ۲۳ فٹ ہے۔ اس آرٹ کو مختلف حصوں میں بنا کر یکجا کیا گیا ہے۔اس آرٹ میں انسان کی انتھک محنت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پینٹنگ ایک مکمل سفر ہے جس کے آغاز میں فرہاد کے تیشے کی ضرب کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم ہر دور کے انسان کی گاریگری کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جس میں انسان کی صلاحیتوں اور اس کے تہذیب و تمدن پر اثرات کے دیکھتے ہیں۔ آخری حصہ اقبال کے فلسفے “ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” کے زیر اثر انسان کی اڑان پیش کرتا ہے۔ “مرال” پر ایک مصرعہ درج ہے “آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا” جو دلالت کرتا ہے کہ صادقین نے اپنے ہنر میں علامہ اقبال کے اثرات بھی سمو دئیے ہیں۔
عالمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مشینری ۳۰ سال میں تبدیل کر دینی چاہئے جسے ہم ۵۰ سالوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ اسے جدید ٹیکنالوجی سے ہمکنار کیا جائے گا مگر ایسا ہوتا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ تمام یونٹ اور کنٹرول روم ابھی تک ۱۹۶۰ کی روایتی ٹیکنالوجی کے اصولوں کے تحت کام کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم جدید دور کی ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت دیر کردیں گے۔
Have you come across this acronym before? If yes, you are lucky. If not, you are lucky still because you are going to know about it in the ensuing lines.
If you want to develop yourself professionally, in 9 out of 10 cases, no body will help you. No moral support, no financial support, no counseling, no guidance.
What to do then?
Continue to wait for the govt to step in?
Keep on Waiting for friends and family to support?
Past experience shows no one is gonna help. What to do then?
DO IT YOURSELF…. DIY
Social Media
Become member of Facebook groups and follow related pages. Join Twitter and use its hashtag feature to find kindred spirits. Build your profile on LinkedIn. Join academia.edu. Visit websites of bloggers.
What are you doing? You are building PLN. Your own personal learning network. This is called online networking.
Meetups & Conferences
You can also build your offline networking. Meet people in conferences, workshops, seminars.
How to do it?
You are waiting for govt to invite you? No, You have to do it yourself. DIY 🙂
Never miss a conference, a seminar or a workshop. If you can get sponsors, low priced tickets, early bird access, well and good. if not, DIY. Always save a little amount to spend on yourself, your education, learning and grooming. If it’s worth attending, spend out of your own pocket.
MOOCs
These days there are lot of MOOCs, massive open online courses. There are many free resources available. e.g. Join Coursera. There are free webinars. You can attend free online seminars. No body is going to help you.. Do it yourself.
DIY is a great idea. It has impacted my life much. You want to do something adventurous. Don’t wait for finances. Don’t wait for helping hands. There maybe few praying lips for you, if you are lucky. helping hands? I have doubts.
So do it yourself. DIY.
If you can’t do it yourself, no body is going to translate your dreams into reality.
نوٹ: یہاں کچھ وجوہات کی بنا پر میں استانی کا اصل نام نہیں لکھ رہا۔
قلم کی پرواز دکان سے شروع ہوئی اور اڑتا ہوا سڑک کے بیچ میں جا لگا۔ جو بچہ قلم لے کر آیا تھا وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ غصہ سے بزرگ کی نسیں پھولنے لگیں اور چنگھاڑتی ہوئی آواز میں بچے کو خبردار کیا کہ آئندہ شمسہ کا قلم لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بچے نے قلم اٹھایا اور وہاں سے بھاگ گیا۔
سڑک کے ایک طرف دوکانیں تھیں اور دوسری طرف رہائشی گھر تھے۔ انہیں گھروں میں سے ایک کھڑکی میں ہلکی سی درز تھی جس میں سے نوجوان لڑکی جھانک کر باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ لڑکی کی نظریں اس بچے کے تعاقب میں تھی جو ابھی ابھی اس کے گھر سے نکلا تھا اور سڑک کے پار ایک دوکان میں داخل ہو گیا۔ لڑکی کو کچھ سمجھ نہ آئی کے دکان میں پہلے سے موجود بزرگ اور بچے کے درمیان کیا گفتگو ہو رہی ہے۔
آڑتے ہوئے قلم اور بزرگ کے انداز میں جھلاہٹ سے لڑکی نے یہی اندازہ لگایا کہ بزرگ نے پوچھا ہو گا کہ یہ قلم کس کا ہے اور بچے نے کہا ہو گا شمسہ باجی کا۔ شمسہ باجی کا قلم سنتے ہی بزرگ کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور قلم کو خاک چٹوادی۔ شمسہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس کے ابا یہی سوچتے تھے کہ بھلا یہ لڑکی پڑھ کر کیا کرے گی۔ لڑکیوں کو پڑھنا نہیں چاہئے بلکہ گھر داری سیکھنے چاہئے۔
شمسہ نے کھڑکی کو مکمل بند کیا۔ کھڑکی بند کرتے ہی جیسے اس کا دل بھی کسی پنجرے میں قید ہو گیا ہو۔ ایک لمحے کے لئے اسے اپنا وجود لاغر نظر آنے لگا۔ جیسے اس کی ٹانگیں اپنے ہی وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیں گی۔ شمسہ دیوار کے سہارے کھڑی ہو گئی اور سارے واقعے کا احاطہ کرنے لگی۔ جب شمسہ کا دل گھبرانے لگا اور سوچیں طویل ہونے لگیں تو آنسو غلبہ پانے لگے۔ اگلے ہی لمحے میں ایک معصوم سے قطرہ شمسہ کے گالوں پر سرکنے لگا۔ یہ فیصلے کا وقت تھا۔
شمسہ نے بے دردی سے اپنے آنسو کو پونچھا اور ہار نہ ماننے کا اٹل فیصلہ کیا۔ شمسہ نے ہار اس وقت بھی نہیں مانی جب اس کے پاس کتاب نہیں تھی اور سکول میں نئی آنے والی استانی سے اسے سبق پڑھنے کو کہا۔ شمسہ نے جھٹ سے ساتھ والی لڑکی سے کتاب پکڑی اور آج کا سبق نکالنے لگی۔ یہ سب کچھ استانی دیکھ رہی تھی۔ طالبات کی طرف سے ایسی بے قاعدگی نا قابل برداشت تھی۔ استانی نے ایک زناٹے دار تھپڑ شمسہ کےگال پر جڑ دیا۔ یہ سزا تھی کتاب ساتھ نہ لانے کی۔
وہ لڑکی جو ایک کتاب نہیں خرید سکتی تھی۔ وہ لڑکی جس کے قلم میں دوات کی سیاہی کے ساتھ والد کا غصہ شامل تھا۔ اس جیسی بے شمار مشکلات کے باوجود انہوں نے امتیازی نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ سزا دینے کے بعد استانی کو شمسہ کے حالات کا علم ہوا تو دوبارہ سزا نہیں دی۔
محترمہ شمسہ جب یہ واقعات سنا رہی تھیں تو میں سامنے طالب علم کی حیثیت سے بیٹھا تھا اور جنابہ ایک معتبر اسکول میں استانی کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ میں نے ان جیسی شفیق اور مہربان استانی نہیں دیکھی۔ آج بھی جب ان کا چہرہ خیالوں میں دیکھتا ہوں تو مامتا کی محبت نظر آتی ہے۔ ان کے طلبا و طالبات کے لئے ریاضی کے علاوہ عام زندگی میں بھی ان کا کردار مشعل راہ ہے۔