Tahir Shahzad

سائنسی پیمانے اور چاند کی پہلی تاریخ

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ

[بقره: 187/2]

ترجمہ: اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے جدا ہوجائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو،

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (ِمنَ الفجر) کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہو گیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے ۔ (صحیح بخاری:1917)

مسند احمد میں ہے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکیے تلے رکھ لیے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:1916) مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آ جاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق و مغرب تک کی ہے.

رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اوقات کار کا کیلنڈر ہر مسجد، گھر اور بازار کی زینت بنتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ کیلنڈر کیسے بنایا جاتا ہے؟ پہلے رمضان سے بھی قبل بتا دیا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سحری کس وقت تک کی جا سکتی ہے اور افطار کس وقت کرنا ہے۔ وقت کا تعین گھڑی سے کیا جاتا ہے جو ہر علاقہ کے لئے مختلف بھی ہوتا ہے۔ جو وقت ہم گھڑی میں دیکھتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس وقت سورج کتنے درجے پر ہے۔ اسی وقت کو ہم رسول سلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں نمازوں کے لئے متعین کرتے ہیں۔

مثال کی طور پر عصر کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سائے اپنی اصل سے دوگنا بڑھ جاتے ہیں۔ کسی بھی مسجد جا کر شمسی کیلنڈر کو دیکھ لیں اس میں پورے سال کے لئے عصر کا وقت متعین ہو گا۔ کس مہینے کی کس تاریخ پر عصر کس وقت ادا کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بغیر کسی پیمائش کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گرمی، سردی میں کس وقت سائے دوگنا ہو جاتے ہیں اور ہم عصر ادا کر سکتے ہیں۔

اول اول تو جب لفظی مطلب کو دیکھا گیا تو صحابہ کرام نے واقعتا سفید اور سیاہ دھاگوں کو ملا کر دیکھا۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعملیم فرمائی کے اس سے مراد رات کی سیاہی میں سے دن کے اثرات نمودار ہونا ہے۔ میں سوچ سکتا ہوں کہ صدیوں تک مسلمان انتہائی ذمہ داری کے ساتھ سحری کے وقت آسمان کو دیکھتے ہوں گے یا ایک اندازہ مقرر کر کے رکھتے ہوں گے تا کہ وہ کھانے پینے سے ہاتھ روک لیں۔

گھڑی ایجاد ہوئی اور سورج کی رفتار، زمین کی گردش اور زمین کی رفتار کا تعین ہونے کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ گھڑی کی سوئیوں کے مطابق کب سورج کے طلوع ہونے کا وقت ہے اور کب غروب ہونے کا۔ آج کے دور میں کبھی کسی کو دیکھا ہے کہ وہ سحری کھانے کے ساتھ آسمان پر نظر جمائے بیٹھا ہو کہ کس وقت سفید اور سیاہ دھاریاں الگ ہوں گی؟

اسی طرح جب ہم رمضان اور شوال کے چاند سے متعلق بصری شہادتوں کی بات ہے تو اولیں دور میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا جو آنکھ کی شہادت سے زیادہ معتبر ہو۔ اس میں بھی فتنہ کا اندیشہ تھا۔ ممکن تھا کہ ایک شخص یہ کہہ کر عید منا لے کہ اس نے چاند دیکھ لیا اب چاہے باقی دنیا روزے سے ہو وہ عید کرے گا۔ اسلام نے حکم دیا کہ اس معاملے میں جمہور کا اتفاق ضروری ہے۔

اگر ہم لفظی مطلب کے بجائے حقائق کی بات کریں تو قمری مہینے کا آغاز چاند کی پیدائش سے ہو گا نہ کہ ناظر کے دیکھنے سے۔ چاند کی پیدائش، عروج اور زوال اپنے مقررہ وقت پر ہوگا۔ آج ہمیں معلوم ہے کہ زمین کے گرد چاند کا ایک چکر29.53  دنوں میں مکمل ہو گا۔ اگر ہمیں چاند کی ایک حالت کا علم ہے تو ہم آسان ریاضی کے ذریعے آنے والے دنوں میں پیش آنے والی چاند کی حالتوں کا تعین کر سکتے ہیں اور پھر یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ نیا چاند کب پیدا ہو گا۔

اگر ہم بصارت اور جمہور کی بصارت سے مراد حق کی تلاش لیں تو آج ہمارے پاس سائنسی پیمانے میسر ہیں جس میں انسانی لغزش کا احتمال نہیں ہے۔ کسی انسان کی ذاتی رائے کی ملاوٹ ممکن نہیں ہے اور فساد پیدا کرنے والوں کا قلع قمعہ کرنا ممکن ہے۔ ایسے میں حقیقت سے روگردانی کرنا، الفاظ کو اپنی مرضی کے معانی پہنانا اور فرقہ واریت کو موقع فراہم کرنا اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ 

جیسے سورج کے اوقات کار مخصوص ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان سورج کو دیکھنے کے بجائے گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتے ہوئے نمازیں ادا کر تے ہیں اور سحری اور افطاری کا اہتمام کرتے ہیں بالکل اسی طرح چاند کے اوقات کار بھی مخصوص ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ چاند کے اس اتار چڑھائو میں ایک سیکنڈ کی بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہئے۔ اللہ کی صناعی میں نہ کوئی غلطی کا گمان کیا جا سکتا ہے اور نہ دیر سویر کا۔ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اسی وقت وقوع پذیر ہو گی۔

اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لئے (بغیر رکے) چلتا رہتا، ہے یہ بڑے غالب بہت علم والے (رب) کی تقدیر ہے۔ . اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ . نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں

سورہ یس- آیت ۳۸-۴۰

کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو

آسمان اور آسمان میں تیرنے والے اجرام فلکی نے ہمیشہ سے انسان کو مبہوت کئے رکھا۔  جب یہ ستارے انسان کی سمجھ سے بالاتر تھے تو انسان نے انہیں ہاتف غیبی کی پیغام رسانی کا ذریعہ سمجھا۔ ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرضی تعلقات قائم کئے، خطوط کھینچے اور اپنے تخیل کے زور پر مختلف اشکال کو فرض کر لیا۔

اللہ نے اس کائنات کو بے عیب بنایا ہے۔ اس کائنات میں ایٹم کے اندر موجود باریک ترین ذرات سے لے اجرام فلکی تک اور ہماری سوچ سے ماورا ہر چیز کو ایک ترتیب اللہ نے عطا کی ہے اور اس ترتیب میں بال برابر بھی فرق نہیں آسکتا۔ اگر یہ زمین ایک ذرہ بھی سورج کی قریب یا دور ہوتی تو زمین پر زندگی کا کوئی وجود نہ ہوتا۔

ہم انسانوں کے معمولات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر  نو بجے دفتر پہنچنا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ روزانہ ہم نو بجے ہی پہنچ رہے ہوں، کبھی کچھ منٹ اور سیکنڈ کم کبھی کچھ منٹ اور سیکنڈ زیادہ ہو ہی جاتے ہیں۔  یہ ہم انسانوں کی بنائے ہوئے معمولات سے ہٹ کر ایک چیز ہے۔ یہ زمین، چاند، سورج، سیارے، ستارے اور دیگر اجرام فلکی مقرر کردہ مداروں میں متعین کردہ رفتار کے ساتھ تیر رہے ہیں۔

اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے

سورہ ابراھیم، آیت ۳۳

جہاں الل نے یہ کائنات اور اس کے اجزا پیدا کئے ہیں وہیں انسان کو بھی تجسس اور شعور دے کر پیدا کیا۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے اد گرد نظر دوڑائے، غور فکر کرے اور کائنات کے اسرار جاننے کی کوشش کرے۔ کائنات کے ان گنت علوم اور اسرار میں سے ایک علم ریاضی کا ہے۔ وکیپیڈیا کے مطابق

 “ریاضی دراصل اعداد کے استعمال کے ذریعے مقداروں کے خواص اور ان کے درمیان تعلقات کی تحقیق اور مطالعہ کو کہا جاتا ہے، “

ان گنت سالوں کی تحقیق اور متجسس ذہنوں نے ریاضی کے ذریعے ہی معلوم کیا کہ زمین کی شکل ایک توے کے بجائے کرہ کی مانند ہے۔، زمین کی گردش سورج کے گرد ہے نہ کہ سورج زمیں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ زمین کا محل وقوع کیا ہے اور نظام شمسی میں کون سے سیارے شامل ہیں۔ مزید انسان نے یہ جانا کہ زمین کی کمیت

  5.972 x 10^24 KG

ہے۔ زمین کا سورج سے فاصلہ

149.6 million Km

ہے۔ چاند کا زمین سے فاصلہ

384,400 Km

ہے۔ ریاضی کے علوم نے اور وقت سے ساتھ حاصل کی ہوئی ٹیکنالوجی سے انسان نے اجرام فلکی کے مدار معلوم کئے، ان کی رفتار اور ان کے باہمی تعلق کو پہچانا۔

سورج اور چاند کیلئے ایک حساب ہے

سورہ الرحمن، آیت ۵

یہ حقائیق بالکل اسی طرح عیاں ہیں جیسے ایک عام آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ سال کے دنوں میں سورج کس وقت طلوع ہو گا اور کس وقت غروب ہوگا۔ 

اجرام فلکی کی اس گردش کا ایک تعلق قدیم رسم و رواج اور مذاہب کے ساتھ بھی ہے اور موجودہ دور کے وقت کے پیمانہ کے ساتھ بھی ہے۔ جیسے 24 گھنٹے کا ایک دن، زمین کے اپنے مدار کے گرد چکر لگانے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ 365 دن، 12 مہینے اور ایک سال سے زمین کے سورچ کے گرد ایک چکر  مکمل کرنے کا پیمانہ ہے۔

 چاند کی درجات طے کرنے کے ساتھ مہینوں اور موسموں کا تعین کیا جاتا ہے۔ دیگر مذاہب اور تہذیب و تمدن کی طرح اسلام میں بھی چاند کی تواریخ کو اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ چان کی پہلی تاریخ کا تعین افق پر چان کے نظر آنے سے ہوتا ہے۔ چاند افق پر اس وقت نظر آئے گا جب سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی چاند افق پر موجود رہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو  جیسے سورج غروب ہوتا ہے ایسے چاند بھی غروب ہوتا ہے۔ جیسے ہر خطہ کے لئے سورج کے غروب ہونے کا وقت مختلف ہے اسی طرح چاند بھی ہر خطہ میں مختلف وقت میں غروب ہوتا ہے۔اور اگر چاند کا غروب ہونا، سورج کے غروب ہونے سے پہلے واقع ہو جائے تو چاند نظر نہیں آئے گا۔ اور اس خطہ کے لئے چاند کی پہلی تاریخ، شمسی تاریخ کے اگلے دن پر واقع ہوگی۔

پہلے وقتوں میں چاند کی پہلی تاریخ کا تعین انسانی آنکھ کی شہادت سے کیا جاتا تھا۔ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ چونکہ لاکھوں لوگ اس کے گواہ ہو سکتے ہیں تو کوئی دو چار لوگ اس کا انکار نہیں کر سکتے جبکہ اس میں قباحت یہ ہے کہ بادل ہونے کی صورت میں چاند نظر نہیں آتا۔

انہی علوم کے ذریعے جن کے اسرار اللہ نے انسانوں پر عیاں کئے۔ ہم زمین کے کسی بھی حصے کے لئے افق کا تعین کر سکتے ہیں، چاند اور سورج کے مدار اور ان کی رفتار کا تعین کر سکتے ہیں۔ اور اس بنا پر ہم بتا سکتے ہیں کہ چاند کی پہلی تارخ واقع ہوئی یا نہیں ہوئی۔

آپ ایک دکان دار سے پھل لینے چائیں اور وہ چار دانے اٹھا کر آپ کو پکڑا دے۔ یہ لیجئے یہ پھل ایک کلو ہو گیا۔ کیا آپ اس کا یقین کر لیں گے؟ میرا خیال یہ ہے کہ جب تک ترازو پر ناپ تول نہ کر لیا جائے دکاندار کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔  اسی طرح  ہو سکتا ہے کوئی شخس یا گروہ چاند کی جھوٹی شہادت دے مگر جب اللہ کے دئے ہوئے علوم کے ذریعے ہم ناپ تول کریں گے تو شک کی گنجائش نہیں رہے گی۔ کسی انسان کے اندازے کو ترازو کے اصل تول پر فوقیت نہیں دی جا سکتی اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ مدار اور اجرام فلکی کی رفتار کے لئے انسانی آنکھ کی شہادت سے بجائے ریاضی کے اصول کی شہادت کو فوقیت رہے گی۔

4 May: شام ۷ بجے افق کے قریب سورج اور چاند کے مقامات
5 May:شام ۷ بجے افق کے قریب سورج اور چاند کے مقامات

زیر نظر تصاویر ایک سافٹ وئیر سے لی گئی ہیں جو اجرام فلکی سے متعلق معلومات جدید علوم کے مطابق فراہم کرتا ہے۔ اس میں سرخ لائن افق کو ظاہر کر رہی ہے۔ جمک دار ستارہ سورج ہے۔ چاند کو واضح کرنے کے لئے پیلے رنگ کا دائرہ لگایا گیا ہے اور نیلے رنگ کا مدار چاند کا مدار ہے  

پہلی تصویر چار مئی کو شام 7 بجے اسلام آباد سے لی گئی ہے جس کے مطابق چاند

06:25pm

افقی لائن عبور کر چکا تھا لہذا چاند نظر آنے کا امکان زیرو فیصد ہے۔

دوسری تصویر پانچ مئی کو شام ۷ بجے اسلام آباد سے لی گئی ہے جس کے مطابق سورج غروب ہو چکا ہے اور چاند نے ابھی افقی لائن کو عبور نہیں کیا۔ چاند افق پر 7 بج کر 25 منٹ تک رہے گا۔ تک رہے گا۔ اس کے مطابق ۵ مئی کو اسلام آباد کے لئے چاند کی پہلی تاریخ واقع ہو گئی ہے۔

میں اسی یقین کے ساتھ آنے والی چاند کی تواریخ کا تعین بھی کر سکتا ہوں۔