آخری حصہ: خود کھانا گرم کر لو
حوا کی بیٹی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کی آخری کڑی ” خود کھانا گرم کر لو” کے عنوان کے ساتھ اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک چھوٹی سی کہانی پیش کرتا ہوں۔ یہ کہانی میرا قیاس ہے اور ہو سکتا ہے ہر بحرف سچ یا جھوٹ ہو مگر اس کہانی کے سہارے میں اپنی بات آگے بڑھا سکوں گا۔
زمانہ قدیم کا انسان:
بات اس وقت کی ہے جب انسان کو شعور عطا ہوا۔ اسے فرق کرنے کی صلاحیت دی گئی اور انسان دو چیزوں کے درمیان موازنہ کرنے کی صلاحیت استعمال کرنے لگا۔ انسان کو بھوک بھی محسوس ہوئی اور اس نے پیٹ کی آگ بجھانے کے نت نئے طریقے بھی دریافت کئے۔ انسان نے محوس کیا کہ درختوں کے پتے کھانے کے بجائے ان پر لگے پھول اور پھل زیادہ لذیذ ہیں۔ انسان نے دیکھا کہ وہ دوسرے جانداروں کو چیر پھاڑ کر اپنی خوراک کا حصہ بنا سکتا ہے۔ اور انسان نے یہ بھی دیکھا کے طاقت کے معاملے میں کچھ انسان بہتر ہیں، زیادہ وزن اٹھا سکتے ہیں اور لڑائی کے دوران زیادہ کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔
مجھے گمان ہے کہ جس وقت انسان اپنے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے نت نئے طریقے دریافت کر رہا تھا اس سے بہت پہلے افزائش نسل کے طور طریقوں سے واقت ہو چکا تھا۔ اور نومولود کی پرورش کی ذمہ داری سے بھی آشنا تھا۔ اس سب کے دوران انسان نے یہ بھی جان لیا کہ جوڑے میں سے ایک فریق زیادہ مشقت اٹھا سکتا ہے۔ وہ فریق مرد ٹھہرا۔ غیر محسوس طریقے سے مرد کی ذمہ داری یہ ہوئی کہ دوسرے جانوروں کا شکار کرے اور وزن اٹھائے۔
جب مرد نے نان نفقہ کی ذمہ داری اٹھا لی تو یقینا وہ شکار کے دوران زخمی بھی ہوتا ہو گا، وزن اٹھانے کے بعد تھک بھی جاتا ہو گا۔ ایسے میں دوسرے فریق نے سوچا ہو گا کہ وہ شکار میں تو حصہ نہیں لے رہا تو کیوں نہ وہ مرد کی تیمار داری کرے۔ جو شکار ہو لایا ہے اسے پروسنے میں مرد کی مدد کرے اور مرد کی غیر موجودگی میں اپنے نومولود کا خیال رکھے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے اس فریق کی پہچان عورت کے طور پر ہوئی۔
مجھے اپنی یہ کہانی نا مکمل نظر آتی ہے۔ مرد اور عورت کے ذمہ داریاں بانٹنے کا مقصد مل جل کر ایک اجتماعی مقصد کا حصول تھا۔ میرے خیال میں تصویر کا ایک اور رخ بھی تھا۔ تصویر کے دوسرے رخ میں عورت کبھی درد میں مبتلا ہوئی ہو گی تو اس رات کو مرد نے ہی شکار کو پکایا ہو گا۔ تصویر کے دوسرے رخ میں کسی عورت کے ساتھ کا مرد زیادہ زخمی ہوا ہو گا اور عورت نے شکار کی اپنی سی سعی کی ہو گی۔ اس مقام پر پہنچ کر یہ کہانی شاید حقیقی نہ لگے لیکن مجھے منطقی ضرور لگتی ہے۔
انسان کا ارتقا:
انسان نے وقت کے ساتھ ارتقا کیا۔ وہ جنگلوں سے نکل کر شہر بسانے لگا۔ روزمرہ کے امور میں آسانیاں پیدا کرنے لگا۔ نت نئے تجربات کے ذریعے اپنے ماحول میں موجود چیزوں کو تسخیر کرنے لگا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی وجود میں آتے گئے۔ اور دونوں فریق جو مرد اور عورت کے روپ میں نظر آتے ہیں نے مختلف ذمہ داریاں سنبھال لی۔ کہیں مرد کے کام میں عورت کی کمی محسوس ہوئی اور کہیں عورت کی ذمہ داری میں مرد کے رائے نے دخل اندازی کی۔
اس تمام ارتقا کے باوجود مرد اور عورت میں زمانہ قدیم کا انسان بیٹھا ہے۔ وہ انسان جس نے اپنی ذمہ داریاں بانٹ لی تھی۔ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن سماج کا پلڑا ایک طرف اس وقت جھکنے لگاجب کچھ کم فہم انسانوں نے ایک دوسرے کی ذمہ داری کو ان کی پہچان بنا دیا۔ عورت بھی ایک انسان ہے۔ عورت کس طرح گوارا کر سکتی ہے کہ جو صدیوں سے مرد کے شانہ بشانہ چلتی رہی ہے اسے عزت، مقام اور مرتبے میں کم سمجھا جائے۔ اور مرد جو اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھا رہا تھا اس نے سوچا کہ عورت بنیادی ضروریات زندگی کے لئے اس کی محتاج ہے لہذا وہ اپنی من مانی کر سکتا ہے۔
دور حاضر کا انسان:
دور حاضر تک پہنچتے پہنچتے انسانی وجود کے دونوں فریق آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک مقابلے کی فضا ہے جس میں ایک طرف عورت ہے جو خراج وصول کرنا چاہتی ہے ان صدیوں کا جو اس نے مرد کے حصار میں گزار دئیے۔ دوسری طرف مرد ہے جو عورت کو محتاج دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ سب مرد ایسے نہیں۔ جی ہاں، سب مرد ایسے نہیں اور ایسے مردوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔
کچھ اقوام نے اس حد تک عورت کو اپنا لیا ہے کہ اگر خواتین کچھ کرنا چاہتی ہیں تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ تعلیم، صحت، نوکری، شادی وغیرہ کے جو بنیادی حقوق جو مردوں کو حاصل ہیں وہی عورت کو بھی حاصل ہیں۔ تیسری دنیا میں عورت کو جو مسائل ہیں اور جن حقوق کا طلب کرنا اس کا گناہ شمار ہوتا ہے وہ لا تعداد ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے ان سے نظر ہٹا کر ترقی یافتہ اقوام کی طرف دیکھ لیں تو وہاں بھی آج تک عورت کی تنخواہ مرد سے کم ہے۔ عورت کو ووٹ دینا برا سمجھا جاتا ہے اور عورت کو راہ چلتے میں آوازے کسے جاتے ہیں۔
انا کی جنگ اور ظاہری برتری کے حصول میں ہم مرد اور عورت کا کردار بھول گئے۔ ہم کچھ کاموں کو ہی مرد اور عورت کا اصل سمجھنے لگے جبکہ مرد اور عورت کا وجود ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے ناگزیر ہے۔ ایک سماج کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار دونوں کی مشترکہ کامیابی میں پوشیدہ ہے۔
حرف آخر:
مرد و عورت کی ٹسل میں افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ایک عورت اس لئے قتل کر دی جاتی ہے کہ وہ وقت پر کھانا گرم کر کے نہیں دے سکی۔ ایک لڑکی سے پورا گھر اس لئے ناراض ہو جاتا ہے کہ صبح بھائی دیر سے جاگا اور کھانا کھائے بغیر اسکول گیا ہے۔ یہ ایک نامکمل سماج کی علامت ہے اور لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے وقت میں اگر کوئی خاتون بینر پر یہ درج کرتی ہے کہ “کھانا خود گرم کر لو” تو وہ کم از کم گالم گلوچ کی حقدار نہیں ہے۔ دور قدیم کا مرد اس لحاظ سے بہتر تھا کہ وہ نان نفقہ کے ساتھ ساتھ عورت کی حفاظت کےلئے بھی چوکنا رہتا تھا۔ آج کا مرد اس وقت چپ ہو جاتا ہے جب ایک عورت کو وڈیرے برہنہ کر کے گلیوں گلیوں گھماتے ہیں۔ ایک مرد کے گناہ کی سزا میں عورت کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔
ایک خاتون اگر کھانا لانے میں ذرا سی تاخیر کر دے تو پہلا جملہ “تم سارا دن کرتی کیا رہتی ہو”، کھانے میں مسالے اوپر نیچے ہو گئے تو “ابھی تک کھانا بھی بنانا نہیں آیا”۔ انسان ہیں دیر سویر ہو جاتی ہے، غلطی بھی ہو جاتی ہے اور کمی بیشی بھی ہو جاتی ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ ایسے موقع پر صبر کیا جائے اور اپنے گھر کی خواتین کا ہاتھ بٹایا جائے نہ کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گلا پھاڑ کر لعن طعن کی جائے۔
میرا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ ایک دوسرے کی مدد کریں اور جہاں غلطی ہو جائے درگزر کیا جائے۔ ظلم و تشدد اور انتہا پسندی چاہے کسی بھی فریق کی طرف سے ہو وہ غلط ہے۔
خواتین کو بھی ریلی نکالنے سے پہلے اس چیز کو سوچنا چاہئے کہ ہم ایک اجتماعی بیانیہ نہیں دے سکتے کہ مرد کو یہ کرنا چاہئے یا عورت کا یہ کردار ہونا چاہئے۔ آج سے تمام مرد اپنا کھانا خود گرم کریں گے یا تمام خواتین اپنی روزی روٹی خود کمائیں گی۔ جب ایک مزدور باپ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیٹی پانی پلا دے، کھانا گرم کر دے تو یہی خاندانی نظام کا حسن ہے۔ اور جب ظالم بھائی اپنی بہن پر ناجائز حد لگائے یا اس پر ہاتھ اٹھائے تو بلا تفریق مرد و زن اسے برا کہنا چاہئے۔ جب محبت کرنے والا شوہر کہے کے میرے کپڑے استری کر دو تو اس میں کوئی عار نہیں اور جب لاڈ اٹھانے والی بیوی کہے کہ آج کھانا باہر سے لے آئیں تو اس میں انا کو سر پر چڑھانے والی کوئی بات نہیں۔
No Comments yet!