Skip to main content

دوسرا حصہ: گلی سڑی لاش

میں حیران بھی ہوں اور پریشان بھی۔ حیران اور پریشان ہونے کی وجہ پر جانے سے پہلے اگر آپ اس سلسلے کی پہلی کڑی پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر دیکھیں۔ کچھ حقیقی واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ اپنے معاشرے کی برائیوں کے حوالے سے کچھ آگہی پیدا کی جا سکے اور ان برائیوں کا سدباب کیا جا سکے۔

میرے حیران ہونے کی وجہ ریلی میں نکلنے والی خواتین ہیں اور ان کا انداز ہے۔ بلا تفریق مرد و زن، مذہب اور تہذیب و تمدن ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان کا تناسب معاشرے کے اجتماعی رویہ کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو سکتا ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے کسی معاشرے میں فلاں طبقہ، فلاں صنف، فلاں مذہب کے تمام لوگ اچھے یا برے ہیں۔
ریلی پر نکلنے والی خواتین پڑھی لکھی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا موقف اس حد تک درست بھی ہے کہ خواتین کا استحصال اب رک جانا چاہئے مگر ان کی تعلیم کا اثر ان کی ریلی میں بھی ہوتا تو یقینا ایک بڑی تعداد جو آج ان پر نکتہ چینی کر رہی ہے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر لبیک کہتی۔ ان کے انداز میں ایک چبھن تھی۔ ایک ایسی چبھن جو اس عورت کو محسوس ہوئی جو اپنی مرضی سے گھر داری کرنا چاہتی ہے اور آپ اسے گلی سڑی لاش کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔
بانو قدسیہ کی مثال ہی سامنے رکھ لیں۔ وہ ایک موثر لکھاری تھیں۔ ان کا فلسفہ ایک بلند سطح پر نظر آتا ہے جسے میں احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں مگر بانو قدسیہ نے کاروباری دنیا کے مقابلے میں چار دیواری کا انتخاب کیا۔ سر پر دوپٹہ اوڑھنے سے ان کے ہنر پر کوئی پردہ نہیں پڑا۔ مشرقی انداز و اطوار اپنانے سے ان کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
میری حیرانی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب میں پڑھتا ہوں کہ “اپنا کھانا خود گرم کر لو”۔ یہ بینر ایسی خواتین نے اٹھا رکھے ہیں جن کی خدمت میں ہر وقت خادمائیں /ملازمائیں موجود رہتی ہیں۔ سودا سلف لانے کے لئے خادمہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی دستیاب ہیں۔ بیگم صاحبہ کے لئے یہ بنا دو، ان کے بیٹے کے لئے فلاں چیز لاا دو۔ اور بیگم صاحبہ کی اترن مل جائے تو الحمد اللہ وگرنہ کبھی پیسے ضرورت ہوں تو جھڑکیاں۔ ایسی خواتین بھلا کسی مطلب کے بغیر کسی کو کھانا گرم کر کے دے سکتی ہیں؟ آپ کے گھر میں کام کرنے والی بھی ایک عورت ہے۔ کبھی سوچ لیں کہ شاید وہ تھک گئی ہے اور اپنا کھانا خود گرم کر لیں۔
بات خواتین کے حقوق کی ہو رہی ہے یا اشرافیہ کی خواتین کے حقوق کی؟ ہمارے معاشرے میں عام خواتین کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا تصور بھی ریلی والی خواتین کے لئے محال ہے۔ روزانہ سوزوکی اور لوکل ٹرانسپورٹ کے دھکے کھا کر جس طرح مزدور خواتین کام پر جاتی ہیں وہ اے سی میں ڈرائیور کے ساتھ جانے والی خاتون کیا جانے؟ برگر کھانے والی لڑکی اس بات پر بھڑک جاتی ہے کے اس کی والدہ نے اتنا بھی کیوں پوچھا کہ اسے کتنے پیسے چاہئے؟ کیا انہیں اعتماد نہیں ہے اپنی لڑکی پر؟ بلینک چیک کیوں نہیں دے دیتی؟ جبکہ شہر کی عام لڑکی نے اگر صبح پڑھنے جانا ہے تو شام کو کپڑے سلائی کر کے یا بچوں کو پڑھا کر اپنی فیس کے پیسے بھی جمع کرنے ہیں۔ دیہات کی ٰعام خواتین کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ خدارا بات کرنی ہے تو ٰعام خاتون کی بات کریں۔ کوئی حق چاہئے تو عام خاتون کو چاہئے۔ کسی کی داد رسی کرنی ہے تو عام خاتون کی کیجئے۔ میڈیا کوریج حاصل کر کے مقبول ہونے والوں کا نام کل کوئی بھی نہیں جانے گا مگر پروین سعید جیسی خواتین کے نقش قدم پر چلنے سے ہر کوئی فخر محسوس کرے گا/گی۔

میری پریشانی کا سبب یہ معاشرہ ہے اور اس معاشرے میں مرد کا کردار ہے۔ جیسی ہی کچھ خواتین آواز اٹھاتی ہیں تو اسلام کے نام کی تلوار لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف سے فتووں کے انبار لگ جاتے ہیں اور رہی سہی کسر گالم گلوچ سے پوری کی جاتی ہے۔ اسلامی احکام سنانے والوں سے گزارش ہے کہ اسلامی ریاست کا عملی نمونہ بھی پیش کریں۔ کیونکر آئے روز اس معاشرے میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے؟ آخر کیونکر اس معاشرے میں لڑکیا ں اغوا ہوتی ہیں؟ کیونکر دشمن عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ تیزاب کے واقعات کو اپنے میڈیا کی زینت بناتے ہیں؟ کیونکر زیادتی کے واقعات میں کمی نہیں آتی؟
اسلامی معاشرہ تو ایسا ہو کہ اگر ایک عورت سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تنہا چلے تو اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔ کیا واقعی ایسا معاشرہ ہے؟ اگر کوئی لڑکی سائیکل چلا رہی ہے تو ااسے گھورنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ اگر کوئی خاتون ہراساں کئے جانے کے واقعے پر سوال اٹھاتی ہے تو بجائے ملزم کا احتساب کرنے کے اسی خاتون کی کردار کشی کیونکر ہو رہی ہے؟ اگر کوئی خاتون جیز پہن کر باہر نکلتی ہے تو آپ کو زیادتی کرنے کا اختیار کس نے دیا؟
مجھے پریشانی ہے ایسی مردانگی سے جو عورت کو زیر کئے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے نے ایسے مرد پیدا کئے ہیں جو گالم گلوچ کر سکتے ہیں مگر اپنی نگاہوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کے جرم کے جواز میں عورت کی کردار کشی معمول بنتی جا رہی ہے۔ ان سب برائیوں کے بعد جب کچھ خواتین آواز اٹھاتی ہیں تو بجائے معاشرے کی اصلاح کرنے کے انہی خواتین پر تیر اندازی کی جاتی ہے۔
میری ذاتی رائے صرف یہ ہے کہ اگر ہم ایک اسلامی معاشرے کا نمونہ پیش کریں تو ہماری خواتین بلا خوف و خطر روز مرہ کے امور سر انجام دینے کے قابل ہوں گی۔ پھر کوئی اس طرح کے بینر اٹھا کر بنیادی حقوق طلب نہیں کرے گا اور نہ ہی معاشرے کی بے راہ روی پر طمانچہ پڑے گا۔ ہمارے خواتین کو کوئی گلی سڑی لاش نہیں کہے گا۔

پہلا حصہ: میرا جسم میری مرضی

سیاق و سباق:
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر کچھ خواتین نکلتی ہیں۔ خواتین کے ہاتھوں میں بینر اور چارٹ ہیں جن پر مختلف کلمات درج ہیں۔ جیسا کہ “اپنا کھانا خود گرم کر لو”، “میرا جسم میری مرضی” اور “یہ چار دیواری، یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک”۔

تمہید:
بظاہر اس ریلی کا مقصد معاشرے میں خواتین کے حقوق کے آگہی پیدا کرنا تھا مگر اس کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی عوام کی طرف سے غم و غصہ کا اظہار ہونے لگا۔ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد نے گالم گلوچ، مغربی تہذیب کے اثرات پر تبصرے اور خواتین کے حدود سے تجاوز کرنے پر لعن طعن سے جواب دیا۔ جب تمام تر تیر اندازی کا ہدف وہ خواتین بن گئیں تو کسی نے یہ سوچنا گوارہ ہی نہ کیا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہیں؟ ان جملوں کا مطلب کیا ہے؟ یہ جملے لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
مزید کچھ لکھنے سے پہلے اپنا موقف واضح کر دوں کہ ان خواتین کا طریقہ کار نا مناسب تھا جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ اختلاف رائے کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہونا چاہئے نہ کہ اپنے معاشرے کو تضحیک کا نشانہ بنانا اور شہرت حاصل کرنا۔ میرے قلم کا مقصد یہ بھی نہیں کہ میں ان کلمات کو جواز فراہم کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مقصد صرف ایک آئینہ فراہم کرنا ہے۔ اگر اس آئینے کو دیکھ کر کوئی بے چینی محسوس ہو یقینااس معاشرے کو بدلنے کی ضرورت ہے نہ کہ احتجاج کرنے والوں پر گالم گلوچ کرنے کی۔

پہلی لڑکی:
شادی کے بعد میں اپنی نعت خواں سہیلی سے ملنے گئی تو اس نے اپنی کلائیوں پر پٹی باندھی تھی۔ قمیض ایسی پہنی تھی کہ کلائیاں نظر نہ آئیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے تو وہ بتانے سے کترانے لگی۔ میری سہیلی مجھ سے ہی بات چھپانے لگی تھی اور میرا اصرار بڑھنے لگا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ بات کا آغاز کہاں سے کرے۔ آخر اس کی خاموشی کا تسلسل ٹوٹا اور وہ بتانے لگی۔
شادی کی رات ہر لڑکی کی آنکھ میں سنہرے سپنے جگمگاتے ہیں۔ میرے سپنے اس وقت جکنا چور ہوئے جب وہ شراب پی کر کمرے میں داخل ہوا۔ میں جو کسی خوشبو کے جھونکے کا انتظار کر رہی تھی وہ بدبو دار ہوا سونگھ کر چکرا گئی۔ اس کے بعد اس نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی جس میں میری کلائی میں کانچ کی چوڑیاں احتجاجا ٹوٹتی چلی گئیں۔ میری کلائیوں میں بھی کانچ کے ٹکڑے پیوست ہوئے۔ جیسے جیسے میں اذیت میں تڑپتی جاتی اسے سرور ملتا۔ شاید اس کی مردانگی کے معیار بستر تک ہی تھا۔ جس وقت میں اپنے جسم پر خراشیں گنتے ہوئے سسک رہی تھی وہ اپنی مردانگی کا ثبوت پیش کر کے خواب خرگوش میں سو رہا تھا۔

دوسری لڑکی:
کاش میرے والد حیات ہوتے۔ وہ زندہ ہوتے تو شاید میری شادی ایسے حالات میں نہ ہوتی۔ میں نہیں جانتی وہ کون ہے۔ کیا کرتا ہے۔ مجھے بس بھیا نے بتا دیا کہ میری نسبت طے ہو گئی ہے۔ ہاں تصویر بھی دکھائی تھی۔ کچھ دنوں بعد اپنی بہنوں کے وساطت سے اس لڑکے نے مجھ سے رابطہ کیا۔ کہنے لگا میں تم سے شادی اپنی والدہ کی مرضی سے کر رہا ہوں مگر میں اپنی پسند کی شادی بھی کروں گا۔ میں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی مجبوری ہے تو مجھے بتا دیں۔ آپ انکار کر دیں یا میں منع کر دیتی ہوں۔ اس نے تو انکار نہیں کیا بلکہ وہ تو بضد تھا جیسے کہ اس نے مجھ سے ہی شادی کرنی ہے۔ میں نے والدہ کے ذریعے بھائی کو یہ بات بتائی اور انکار کر دیا۔ میری کیا جرات کہ میں انکار کروں۔ بھائی کے تھپڑ نے مجھے میری اوقات یاد کروا دی۔
بابا نے کچھ زمین ہم بہنوں کے نام رکھ چھوڑی تھی۔ بھائیوں کا اصرار تھا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تمہاری شادی ہم کروا رہے ہیں اس لئے وہ زمین ہمیں لکھ دو۔ کافی کوشش کی یہ معاملہ کہیں بھول بھلیا میں کھو جائے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ایک طرف زندگی تھی اور ایک طرف زمین۔ بابا نے کچھ بھی سوچ کر وہ زمین ہمارے نام کی ہو مگر وہ سوچ منوں مٹی تلے جا سوئی تھی۔

تیسری لڑکی:
میٹرک کر لی ہے اب آگے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ مجھے پتہ ہے کالج میں لڑکیاں فیشن اور بے غیرتی سیکھنے جاتی ہیں۔ پڑھ لکھ کر کون سا تیر مار لینا ہے۔ یہ سب باتیں سنانے کے بعد میرا چار دیواری سے نکلنا بند کر دیا گیا تھا۔ میں اب جوان ہو گئی ہوں اور مجھے گھر کے اندر ہی رہنا ہے۔ کوئی اچھا رشتہ دیکھ کر میری شادی کر دینی ہے۔نہ بھائیوں نے حمایت کی نہ اماں کچھ بولی۔
پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہوں مگر ہوں ذرا ڈھیٹ۔ اتنی سے عزت افزائی تو معمول کی بات ہے۔ کسی سہیلی کے ذریعے پرائیوٹ انٹر میڈیٹ کا داخلہ کروایا۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر جو چار پیسے بچتے وہ اپنی کتابیں اور پڑھائی کا سامان لے آتی۔ گھر کے کام کاج کے بعد دو منٹ ملتے تو پڑھائی بھی کر لیتی۔ اردو تو سمجھ آ جاتی مگر انگلش کون پڑھائے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ نمبر تو کم ہی ہیں مگر جیسے تیسے کر کہ انٹر میڈیٹ کر لیا۔
بی اے کا داخلہ بھجوا دیا اور کتابیں بھی خرید لی۔ نہ جانے خدا کو کیا منظور تھا۔ انہی دنوں میرے ناک سے خون آنے لگا۔ نکسیر سمجھ کر زیادہ توجہ نہیں دی۔ مزید کچھ دنوں تک سینے میں درد بھی ہونے لگا۔ ایک دن خالہ نے دیکھ لیا تو ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ بتائے۔ کچھ پیسوں کا بندوبست تو خالہ نے خود سے کر لیا اور جو مزید چا ہئے تھے اس کے لئے میرے بھائی کو فون کر دیا۔
میرا بیمار ہونا تو بس ایک بہانہ تھا۔ میری پڑھائی اپنے جمع کئے ہوئے پیسوں سے جاری تھی۔ اس موقع پر ایک طرف بھائیوں کو میری پڑھائی والی فضول خرچی ستانے لگی اور دوسری طرف میری بیماری کو لڑکیوں کا ڈرامہ کہہ کر ہنسی میں اڑا دیا۔ میری پرائیوٹ پڑھائی پر پابندی کے ساتھ میرے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لئے میرا شادی طے کر دی۔

حرف آخر:
لکھنے کو بہت کچھ ہے، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین کا استحصال کرنے کے باوجود ہمارے معاشرے کے مرد بضد ہیں۔ ان کا فلسفہ بہت آسان ہے کہ اپنی مردانگی کے ثبوت کے طور پر اپنے ارد گرد کی خواتین کو دبا کر رکھا جائے۔ یہاں عورت کے کردار کو سراہنے کے بجائے ان کی کردار کشی کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو جواز فراہم کرنے کا موقع بھی دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔ آپ نے کتنی دفعہ کچن میں جا کر اپنی والدہ یا بہن کا ہاتھ بٹایا ہے؟ بیوی اور بہن کو چھوڑیں ایک طرف، کبھی اٹھ کر اپنی والدہ کو پانی پیش کیا ہے؟ ان کی رائے کو احترام کی نظر سے دیکھا ہے؟ کس جنت اور کس اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ تم میں سے بہتریں شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر سب بیٹے، بھائی، شوہر اور باپ اپنے گھر کی خواتین کو عزت اور محبت دیں تو کوئی لڑکی اپنی چار دیواری کی جنت چھوڑ کر سڑکوں پر نہیں آئے گی۔

Hello World

Hi, I am Tahir Shahzad. Hello world is my ice-breaking blog post. Right now I don’t know where to start and what to write about but here I am. There are so many topics need to be addressed. There are voices that are unheard. I will try to be the unheard voice about religion, culture, social issues and create awareness about technology.

Web Development:

My connection with technology will be helping to cover tech insights in my limited capability. Create awareness and how to utilize technology for the betterment of society, spread education and help those who need it. Being web developer I can write tutorials and answer the question for each phase of web development.

Artificial Intelligence:

I am artificial intelligence enthusiast. I am learning tensorflow and deep networks along with my research. In the field of artificial intelligence and machine learning data is important. Utilizing third-party APIs some scripts are in process to access huge amount of data, filter and generate labels for data. I will also share some utility tools from my research group.