Skip to main content

اسلام کے چوکیدار

May peace prosper in Pakistan

جوحق سے کرے دور ،وہ تدبیربھی فتنہ
اولاد بھی، اجداد بھی، جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
شاعر: سرفراز بزمی فلاحی

سب سے پہلے جرم کی پہچان کی جانی چاہئے۔ ناموس رسالت کی حد کن صورتوں میں نافذ کی جانی چاہئے اور کن صورتوں میں نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس کی پہچان نہیں کریں گے تو عین ممکن ہے کوئی شخص یا گروہ کسی بے گناہ کو ناموس رسالت کے نام پر قتل کر دے، عین ممکن ہے کے اسلام کے نام پر فتنہ و فساد برپا کیا جائے، دل کی خلش اور انتقام کے طور پر اسے استعمال کیا جائے اور عین ممکن ہے کے کسی سازش کو پنپنے کا موقع دیا جائے۔

اگر دو فریق ہیں تو دونوں میں سے کوئی ایک، دوسرے پر ناموس رسالت کا الزام عاید کر دے اور دوسرا اس کا اقرار کرے کسی دباؤ کے بغیر، جیسا کے باغی ہو جانے والے لوگ کرتے ہیں تو ایسے شخص پر حد نافذ کرنی چاہئے۔

اگر کوئی شخص اپنے حوش و حواس میں رہتے ہوئے ناموس رسالت کی توہین کرے تو اس پر حد نافذ کرنی چاہئے۔ مثلا پاگل پر حد نافذ نہیں کی جانی چاہئے۔

اگرایک مسلمان فریق دوسرے غیر مسلم فریق کی مذہب کی توہین کرے اور جوابا غیر مسلم فریق غصے یا جذبات میں آکر کوئی کلمہ ادا کر دے تو حد مسلمان فریق پر نافذ کرنی چاہئے۔

اگر جرم کیا ہو یا نہ کیا ہو، مگر ایک جم غفیر قتل پر آمادہ ہے تو ایسے میں ناکردہ گناہ کا اقرار کر کے معافی مانگنے میں عافیت ہو تو ایسے واقعے میں موجود لوگوں کو بطور گواہ اور اس واقعے کو جرم کی صحت کے حوالے سے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اگر کوئی شخص غلطی سے علم نہ ہونے کے باعث ایسا فعل کر بیٹھے جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور علم ہو جانے پر معافی کا خواستگار ہو تو اسے معاف کر دینا چاہئے۔

تمام حقائق کے پیش نظر حد نافذ کرنے کا حق صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے۔ کوئی شخص یا گروہ انفرادی حیثیت میں حد نافذ نہیں کر سکتا۔

اگر ریاست نے غلط فیصلہ کر دیا ہے تو اس کا سوال ریاست کے ذمہ داران سے ہو گا۔ چونکہ ریاست آپ کی رعایا نہیں ہے اس لئے آپ پر نہ تو کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ گناہ۔

کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ”
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص حکمران ہے، اس سے اسکی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا

ریاستی فیصلے سے اختلاف کے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ ہجرت جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اختیار کیا اور بعد میں حضرت حسین نے بھی اسی سنت پر عمل کیا۔
دوسرا راستہ پر امن رہتے ہوئے اس صحیح فیصلے کی تبلیغ کرنا اور ایسے لوگوں کا چناؤ کرنا جو ریاستی امور میں صحیح فیصلے سر انجام دے سکیں۔

ملک و قوم میں اجماع سے گریز کرنا، تحقیق کے راستے مسدود کرنا، قانونی ذرائع استعمال نہ کرنا، خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا، اسلام کے نام پر عورتوں، بچوں کو یرغمال بنانا، ریاستی امور کی مخالفت میں اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچانا اور راستے بند کرنا ہر صورت میں اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

No Comments yet!

Your Email address will not be published.


The reCAPTCHA verification period has expired. Please reload the page.